ذبیح اعظم کے خاندان میں حبیب ربِ حسیب آیا

ذبیح اعظم کے خاندان میں حبیب ربِ حسیب آیا

سناتا وحدت کا پیارا نغمہ خدا کا وہ عندلیب آیا


عرب کی دھرتی پہ کفر اور شرک کے اندھیرے تنے ہوئے تھے

انھیں اندھیروں میں شمعِ توحید لے کے رب کا حبیب آیا


ربیع الاوّل میں تیرے صدقے میں تجھ پہ واری میں تیرے قرباں

نبی کے آنے کا مژدہ لے کر تو ایک ماہِ عجیب آیا


عمر ہوں صدیق ہوں کہ عثماں علی ہوں یا ہوں بلال و حسّاں

وہ جنتی ہے بشرطِ ایماں جو مصطفیٰ کے قریب آیا


وہ جس کا ہلکا سا اک تبسم حیاتِ نو کا پیام لائے

لعاب میں مژدہء شفا لے کے کیسے حاذق طبیب آیا


نبیِ امی کہ جس کو رب نے زمانے بھر کے علوم بخشے

قرآن کا معجزہ لیے وہ کلامِ رب کا نقیب آیا


عرب کے فصحا بھی جس کے آگے زبان اپنی نہ کھول پائے

بلاغتوں کے گہر لٹاتا فصیحِ کامل خطیب آیا


یہ کس کو اسریٰ کی رات رب نے طلب کیا لامکاں سے آگے

یہ کون آخر بہ شکل انساں خدا کے اتنے قریب آیا


پڑھی جو نظمی نے نعتِ سرور تو سارا مجمع یہ بول اٹھا

یہ شاہِ برکات کے گھرانے سے کون اک خوش نصیب آیا