زمانے بھر کے ٹھکرائے ہوئے ہیں
شہادر پر ترے آئے ہوئے ہیں
کرم کی بھیک ہے سب کی تمنا
سوالی ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں
عمل کا کوئی سرمایہ نہیں ہے
جھکی نظریں ہیں، شرمائے ہوئے ہیں
ندامت سے لرزتے چند آنسو
یہ نذرانہ ہے جو لائے ہوئے ہیں
انہی کا ہوگیا سارا زمانہ
جنہیں سرکار اپنائے ہوئے ہیں
کھلے ہوں پھول جب اشکوں کے ہر سو
سمجھ لیجئے کہ آپؐ آئے ہوئے ہیں
ظہوریؔ وہ سخن کی داد دیں گے
جگر پر چوٹ جو کھائے ہوئے ہیں