زمیں تا چرخ بریں فرشتے ہر اک نفس کو پکار آئے
گناہگارو مناؤ خوشیاں شفیع روز شمار آئے
وہ نور اول سراپا رحمت عطا کے پیکر خدا کی نعمت
وہ مونس و غمگسار بنکر دکھی دلوں کے قرار آئے
چمن نے کی آبرو نچھاور گلوں نے سجدے کئے قدم پر
نقاب الٹے گہر لٹاتے وہ جب سوئے لالہ زار آئے
بشر کی تشہیر کرنے والو نہ اٹھ سکا تم سے بارِ احساں
کہ خاکیوں کی اس انجمن میں وہ عرش کے تاجدار آئے
جہانِ خاکی کے تیره بختو تباہکارو خطا شعارو
کچھ اس طرح جاؤ آبدیدہ کہ ان کی رحمت کو پیار آئے
کہیں نہ کھل جائے چشم نرگس کہیں نہ برپا ہو حشر کا دن
زمیں پہ تار نظر سے چلنا حبیب کا جب دیار آئے
میں اس کی ہر اک ادا پہ ارشد کروں عقیدت سے دل نچھاور
شہہ مدینہ کے در پہ جاکر جو اپنی ہستی سنوار آئے
عرب سے بغداد کی زمیں تک نجف سے اجمیر کی گلی تک
ہزار ناموں سے ان کو ارشد کہاں کہاں ہم پکار آئے