آج اشکوں سے کوئی نعت لکھوں تو کیسے

آج اشکوں سے کوئی نعت لکھوں تو کیسے

کوئی آنسو بھی مرے پوچھنے والا نہ رہا


غم کی تصویریں لفظوں سے بنا تا ہوں مگر

وہ مرا دستِ ہنر دیکھنے والا نہ رہا


آؤ ہم مل کے چلیں سُوئے مدینہ اک بار

اس سخن کا مرے اب کوئی حوالہ نہ رہا


وہ رفیقِ سفرِ شہرِ مدینہ ہے کہاں

رہ گیا رختِ سفر قافلے والا نہ رہا


رنگ جذبات کے سب اُڑ گئے لفظوں سے مرے

سبزہ سبزہ نہ رہا لالہ بھی لالہ نہ رہا


اس پرستارِ مدینہ کے چلے جانے سے

لذتِ زیست کے ایواں میں اُجالا نہ رہا