بنا ہے سبطین آج دولہا سجائے سہرا نجابتوں کا
ہر ایک گل میں ہے نوری نکہت ہے رنگ حسینی سیادتوں کا
یہ شاہ برکت کا ہے گھرانہ حضور اچھے میاں کا کنبہ
حسب نسب میں ہے اپنے یکتا یہ خانداں عالی نسبتوں کا
حضور نوری میاں کی نوری روایتوں کے امین ہم ہیں
ہیں یوں تو کہنے کو ہم نواسے قوی ہے رشتہ رضاعتوں کا
حضور سید میاں کا پوتا بنا ہے سبطین آج دولہا
سپاہی زادوں کے گھر لگایا خوشی نے ڈیرا مسرتوں کا
حضور آلِ عبا کی روحانی شفقتیں اس پہ سایہ افگن
ثمر انہی کی دعا کا ہے جو بنا ہے مرکز یہ چاہتوں کا
حضور سید حسن میاں نے اسے دیا رنگِ خانقاہی
انہی کی نگہِ کرم سے حامل ہوا ہے علمی سعادتوں کا
حسین زیدی ہیں اس کے دادا جو رنگ میں اپنے منفرد ہیں
انہی سے پایا ہے اس نے جذبہ پرائے اپنوں کی خدمتوں کا
امین اشرف نجیب افضل چچا بھی ہیں اور ماموں بھی ہیں
نصیب میں اس کے رب نے رکھا ہے فیض دوہری قرابتوں کا
یہ اپنی اناّ کا ہے دلارا ہے للّی دادی کا آنکھ تارا
یہ اپنی خالاؤں کا چہیتا مدار ماموں کی چاہتوں کا
امان عثمان اور ایمن شفا نبیل آج کتنے خوش ہیں
کہ آج بھائی نے سہرا باندھا یہ وقت ہے نیک ساعتوں کا
حمیریٰ عذرا رقیہ رعنا حمیدہ اس کی سگی ہیں پھوپھیاں
چھٹی پھوپی ہیں ثمینہ اس کی بھتیجا ہے سب کی چاہتوں کا
نزاکتیں اس میں نانہالی نفاستیں اس میں دادہالی
سراپا گنگ و جمن کا سنگم مجسمہ دوہری نسبتوں کا
یہ خوش نصیبی دولہن کو دیکھو کہ ایسا عالم ملا ہے دولہا
تبھی تو سہرے سے رنگ چھلکا ہے برکتوں کا سعادتوں کا
یہ کیسی بارات ہے کہ ہر سو لگائے ہیں برکتوں نے ڈیرے
طنابیں نورانی تن گئی ہیں ہے شامیانہ بھی شفقتوں کا
الٰھی سبطین اور ثنا کو علی و زہرا کی بھیک دے دے
رواں رہے کارواں علی کا رہے تسلسل سیادتوں کا
لکھا ہے نظمی نے ایسا سہرا کہ سارے باراتی بول اٹّھے
ہے رنگ سید میاں کا اس میں انہی کی شعری لطافتوں کا