جنون و خرد
خرد کا اصل یہی ہے کہ ہے رجیم و لعین
جنوں کا اصل ہے مشکل کُشا امیر و معین
جنوں کہے نہ انا الحق تو پھر جنوں کیسا !
خرد یزید ، جنوں سیّدِ امامِ مُبیں
خرد کے پاس خبر کے سوا نہیں کچھ اور
جنوں مگر ہے ، دو عالم کا رازدار و امیں
خرد حدوث میں پابند ، حادث و فانی
جنوں قدیم ہے قائم ہے صُورتِ یٰسیں
خر د کے پاس ہے انبارِ دولت ِ دُنیا
جنوں کے پاس فقط آہ و نالہ ، نانِ جویں
خرد کا زور جماعت کے دست و بازو پر
جنوں کے پاس بڑا راز ہے کہ خاک نشیں
خرد کے دل میں ہے کھٹکا غریب ہونے کا
جنوں کو درد کی دولت سے مل گئی تسکیں
خرد بتائے کہ کعبہ ہے کِس لیے غم پوش
جنوں بتائے کہ ہے کون اس مکاں کا مکیں
خرد نہ جانے کہ کعبہ ہے خود امامِ جہاں !
جنوں کی راہ سیاہ پوش ہے غمِ مسکیں ؑ
خرد ہوئی ہے پریشاں کہ آگ روشن ہے
جنوں خلیلؑ ہے بارد؟ سلامتی پہ یقیں
خر د نے پایا ہے تسخیرِ کائنات کا راز،
جنوں بلند، فنا و بقا بھی زیرِ نگیں !
خرد خلاؤں کو بے آس چل پڑی لیکن ،
جنوں کے پاؤں کے نیچے ہے جوہرِ تسکیں
خرد کو رازِ انا الحق پہ بر ہمی جائز
جنوں یسّبح للہ کے راز کا ہے امیں
خر د کے لب پہ تو ہے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ !
جنوں یہ کہتا ہے دل اس کا ہم زبان نہیں
خرد کا جامہ ہَے رنگین اور قبا عا لی،
جنوں کے جسم پہ کاغذ کا پیر ہن بھی نہیں
خرد کی بات نہ تھی جب ملا وطن ہم کو
جنوں ہُوا تھا مہاجر وطن سے دُور کہیں
خرد کی چال تھی تقسیم خون کی گویا!
جنوں تھا جذبہء ایثار میں سراپا یقیں
خرد نے قافلے لُوٹے تو بن گئی تاریخ
جنوں کا حرفِ شکایت بھی ہم کو یاد نہیں
خرد سے کام نہ لو، لَا اِلٰہ کے متوالو
جنوں کو کام میں لاؤ مزید وقت نہیں
خرد سنبھالتی پھرتی ہے چار تنکوں کو
جنوں ہے برقِ تپاں چھوڑے راکھ تک بھی نہیں
خرد کے عِلم میں ہوگا کہ در پہ دشمن ہے
جنوں بھی خوب سمجھتا ہے کارِ دشمنِ دیں
خرد کی دُنیا متاع الغدار ہے بے شک
جنوں کا گُرز بنے گا خرد کا یومُ الدّیں
خرد جنوں کے نشیب و فراز کیا جانے
جنوں کے اپنے ہیں افلاک اس کی اپنی زمیں
خرد نے کردیا اقبال کو حرم بیزار
جنوں نے مردِ قلندر کو کر دیا شاہیں
خرد بیرسٹر و سر ڈاکٹر اَبُو جاوید!
جنوں ہَے نالہ شب گیر فقر گوشہ نشیں
خرد نے خوب پڑھے ہیں علومِ شرق و غرب
جنوں بغیر مگر صورتِ قرار نہیں !
خرد نے بات نہ بدلی تو کیا خرد مندی
جنوں کو جُنبش مژگاں کبھی گوار ا نہیں
خرد کے سجدے سے سوئے کعبہء ہمہ دانی
جنوں کا کعبہ ہَے کعبے کا کعبہ یادِ حسیںؑ
خرد گھمنڈ ، تفا خر ، غرُور کی بستی
جنوں کے پنجے سے ہے چاک جامہِ تمکیں
خرد بنامِ خُدا کھا رہی ہے نذرانے !
جنوں ہے دُشمنِ ہر خرقہ پوش و رہزنِ دیں
خر د نے سمجھا ہے تقسیم کا سوال جسے
جنوں ہے ضربِ ید اللّہٰی ہو نہ چیں بہ چیں
خرد خیال سے پائی ہے بد دماغوں نے
جنوں ہے فیضِ نظر ، بے نظر ، ملے نہ کہیں
خرد کا راج پر تھوی کا راج ہے گویا !
جنوں ہے غوری جنوں خوجہِ معین ُ الدّیں
خرد ہے دیکھ کے حیراں جنوں کی لاٹ بلند
جنوں ہے کُشتہِ تسلیم خواجہ قطبُ الدّیں
خرد کی بستی اجودھن کی راجدھانی ہے
جنون پاک پتن ہے جنوں فریدُالدّیں
خرد نے دیکھا جنوں کا جمالِ شاہانہ !
جنوں ہے خسٌرو جنوں خواجہ نظامُ الدّیں !
خر د ہے کیدو خرد کا مزاج پرویزی
جنوں کا نام کہیں ہیر ہے کہیں شیریں
خرد کے دام میں آیا فر نگیوں کا جہاں
جنوں کو ڈھونڈنے نکلے ہیں پاسکیں جو کہیں
خرد زباں سے کرے رام رام یا ٹیں ٹیں !
جنوں کلیم ہے ظاہر میں گو زباں نہیں !
خرد کے بعد بنا ہے جمالِ تبریزی
جنوں سے قبل تھا رومیؒ فقط جلالُ الدّیں ؒ
خرد سے پُوچھ نہ افسانہ غمِ شبیر!
جنوں شہید، شہادت جنوں بغیر نہیں !
خرد کے بھیس میں آنے کو ہے خَرِ دجّال!
جنوں امامِ جہاں ، آرہا ہے دیر نہیں
خرد کے پُرزے اُڑیں گے وجودِ امکاں میں
جنوں کے حکم سے باہر نہیں مکان و مکیں
خرد کو ہونا ہے رُسوائے ہر جہاں واصؔف
جنوں کی صُبحِ درخشاں ، جنوں کی شام حَسیں