راتوں کی بسیط خامشی میں
جب چاند کو نیند آرہی ہو
پھولوں سے لدی خمیدہ ڈالی
لوری کی فضا بنا رہی ہو
جب جھیل کے آئینے میں گُھل کر
تاروں کا خرام کھو گیا ہو
ہر پیڑ بنا ہوا ہو تصویر
ہر پھول سوال ہو گیا ہو
جب خاک سے رفعتِ سما تک
اُبھری ہوئی وقت کی شِکن ہو
جب میرے خیال سے خدا تک
صدیوں کا سکوُت خیمہ زن ہو
اُس وقت مرے سُلگتے دِل پر
شبنم سی اُتارتا ہے کوئی
یزداں کے حریم ِ بے نشاں سے
انساں کو پکارتا ہے کوئی