حسن رضا خان

آسماں گر تیرے تلووں کا نظارہ کرتا

آپ کے دَر کی عجب توقیر ہے

ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایا

اگر قسمت سے میں ان کی گلی میں خاک ہو جاتا

اگر چمکا مقدر خاک پائے رہرواں ہو کر

اے دین حق کے رہبر تم پر سلام ہر دم

اے مَدینے کے تاجدار سلام

اللہ برائے غوثِ اعظم

اَسیروں کے مشکل کشا غوثِ اعظم

اے راحت جاں جو تِرے قدموں سے لگا ہو

اللہ اللہ شہِ کونین جلالت تیری

اے کریم ابنِ کریم اے رہنما اے مقتدا

باغ جنت کے ہیں بہرِ مَدح خوانِ اَہلِ بیت

بزمِ محشر منعقد کر میرِ سامانِ جمال

باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے

بہاروں پر ہیں آج آرائشیں گلزارِ جنت کی

پرنور ہے زمانہ صبحِ شبِ وِلادت

پڑے مجھ پر نہ کچھ اُفتاد یاغوث

پردے جس وقت اُٹھیں جلوۂ زیبائی کے

تصور لطف دیتا ہے دہانِ پاک سروَر کا

تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہوگا

ترا ظہور ہوا چشم نور کی رونق

تیرے دَر پہ ساجد ہیں شاہانِ عالم

تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو

تم ہو حسرت نکالنے والے

ساقی کچھ اپنے بادہ کشوں کی خبر بھی ہے

جُبِّ آلِ رسول بحرِ عرفاں

ہے یہ دیوان اُس کی مدحت میں

جن و اِنسان و مَلک کو ہے بھروسا تیرا

جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاب