سامانِ بخشش

آہ پورا مرے دِل کا کبھی اَرماں ہوگا

ان کو دیکھا تو گیا بھول میں غم کی صورت

اعلیٰ سے اعلیٰ رِفعت والے بالا سے بالا عظمت والے

اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اے سروَرِ عالی مقام

بہارِ جاںفزا تم ہو نسیم داستاں تم ہو

بخطِّ نور اس دَر پر لکھا ہے

پڑھوں وہ مَطلعِ نوری ثنائے مہرِ اَنور کا

پیام لے کے جو آئی صبا مَدینے سے

تم پر لاکھوں سلام تم پر لاکھوں سلام

ترا جلوہ نورِ خدا غوثِ اعظم

تجلیٔ نورِ ِقدَم غوثِ اعظم

تو شمعِ رسالت ہے عالم تیرا پروانہ

تیری آمد ہے موت آئی ہے

جو خواب میں کبھی آئیں حضور آنکھوں میں

چارہ گر ہے دِل تو گھائل عشق کی تلوار کا

حبیبِ خدا کا نظارا کروں میں

حقیقت آپ کی حق جانتا ہے

کیسے کاٹوں رَتیاں صابر

دو جہاں میں کوئی تم سا دوسرا ملتا نہیں

دِلوں کو یہی زندگی بخشتا ہے

رُسل اُنہیں کا تو مژدہ سنانے آئے ہیں

کفشِ پا اُن کی رکھوں سر پہ تو پاؤں عزت

منظورِ نظر ہے بس ثنائے سرکار

گلہائے ثنا سے مہکتے ہوئے ہار

حد بھر کا زِیاں کار سیہ کار ہوں میں

بدکار ہوں مجرم ہوں سیہ کار ہوں میں

دنیا تو یہ کہتی ہے ُسخنور ہوں میں

ظالم ہوں جفاکار و ستم گر ہوں میں

شاہِ والا مجھے طیبہ بلالو

فوجِ غم کی برابر چڑھائی ہے