درختوں پہ ہریالی آئی کہاں سے

درختوں پہ ہریالی آئی کہاں سے

نظر آئے صحرا میں پودے جواں سے


یہ سبزہ زمیں پر، یہ دریا میں پانی

ذرا سوچو لوگو! یہ آئے کہاں سے


زمیں گھومتی ہے یہ کس کی لگن میں

ثنا کس کی کرتی ہے اپنی زباں سے


نشانی ہے کس کی، جو پودے ہیں خود رو

لگائے ہیں کانٹوں میں گل بھی جواں سے


کرم سے اُسی کے یہ سانسیں رواں ہیں

کہاں کوئی باہر ہے اُس کی اماں سے


یہ حمدِ خدا سب سے افضل ہے بے شک

پکارے فرشتے سبھی آسماں سے


ہو توصیف رب کی یہ ممکن نہیں ہے

سُنی حمد اعلا نبیﷺ کی زباں سے


جو طاعت میں رب کی ہمیشہ رہا ہے

وہی سرخ رو ہوکے گزرا جہاں سے


ہوئے خواب محفوظ سارے فرشتے

حرم جھوم اٹھا بلالی اذاں سے


مواجہ پہ اُن کے کھڑا رورہا ہوں

کہا میں نے کچھ بھی نہ اپنی زباں سے


یہ دورِ خزاں ہوگا رخصت تو اِک دن

بہاریں پھر آئیں گی اِک دن وہاں سے


کریں غور طاہرؔ ذرا موسموں پر

سبق ہم کو ملتا ہے دورِ خزاں سے

شاعر کا نام :- طاہر سلطانی

دیگر کلام

الٰہ العالمیں تیرے کرم کی آشتی میں ہوں

الٰہی! تیرے بندوں سے محبت پیار ہے مجھ کو

اللہ کا طاہر پہ کرم خوب ہوا ہے

شہرِ خزاں کو اے مرے مولا نکھار دے

باعمل میرِ کاروان بھی دے

بخشی ہے خداوند نے قرآن کی دولت

یہ اثر ثنا کا دیکھا، کہ حسیں فضا ہے بے حد

رب سب کا جو ہے سچّا وہ بالا ہے دوستو

قائم مرا بھرم رہے اللہ کے نام سے

جس میں ہو تیری رضا ایسا ترانہ دے دے