عاشق مصطفے شوق سے تو سدا گیت سرکار بطحا کے گاتا رہے

عاشق مصطفے شوق سے تو سدا گیت سرکار بطحا کے گاتا رہے

حاضری عمر بھر تیری ہوتی رہے تو مدینے سدا آتا جاتا رہے


مہکی مہکی رہے تیرے دل کی فضا آئے طیبہ سے ہر وقت ٹھنڈی ہوا

روز سجتی رہے محفل مصطفے ذکر سرکار کا دل لبھاتا رہے


اے قمر تو رہے بن کے رشک قمر تجھ پہ ہر دم رہے مصطفیٰ کی نظر

تذکرہ نور والے کا ہو تیرے گھر ترا گھر نور سے جگمگاتا رہے


خواب میں اک نہ اک دن حضور آئیں گے جلوہ پاک اپنا وہ دکھلائیں گے

شوق دیدار کا یہ تقاضا ہے تو ان کی راہوں میں آنکھیں بچھاتا رہے


دینے والے نے تجھ کو ہے سب کچھ دیا تم بھی کرنا زمانے میں سب کا بھلا

تجھ سے خیرات مانگے مدینے کی جو جھولی بھر کے ترے در سے جاتا رہے


جب بھی جائے تو لج پال کے رو برو کر کے اشک ندامت سے دل کا وضو

سبز گنبد کو چومے نگاہوں سے تو جالیوں کو بھی سینے لگاتا رہے


رحمتوں کے ترے گھر پہ سائے رہیں تجھ کو پیغام طیبہ سے آتے رہیں

ان کے روضے کی تو جالیاں چوم کر پیاس قلب حزیں کی بجھاتا رہے


مانگنے کا نیازی قرینہ رہے ان کی یادوں سے معمور سینہ رہے

تیرے سینے میں یاد مدینہ رہے رنگ تیری محبت پہ آتا رہے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

مسلکِ اعلیٰ حضرت سلامت رہے

وادی رضا کی کوہ ہمالیہ رضا کا ہے

جھکتے ہیں جہاں سبھی تیرا وہ آستاں

یا حسین ابن علی تیری شہادت کو سلام

یا علی مرتضی مولا مشکل کشا جس پر چشم کرم آپ کی ہو گئی

سارے ولی بھلی وبھلی میراں جیہا کوئی نہیں

ہجویر کی سرکار سا دیکھا نہیں کوئی

شان کیا تیری خدا نے ہے بڑھائی خواجہ

ہو کرم کی نظر آئے ہیں تیرے در باوا گنج شکر باوا گنج شکر

یاد میں تیری جانِ جاں ہر کوئی اشکبار ہے