بڑا گھمنڈ ، تفاخر ، غرور اور تمکین

بڑا گھمنڈ ، تفاخر ، غرور اور تمکین

یہ لے کے پہنچا کہاں سجدہ گاہ میں توجبیں


لباس عطر میں ڈوبا ہوا ہے فکر میں دل

زباں پہ نامِ خُدا سُرخ چہرہ چیں بہ چیں


عصائے موسیٰؑ لئے ہاتھ میں پھرے ہے کہاں

فرعونِ وقت بتاؤ اسے یہ ہے مسکین


کہ قہقہوں کی بلندی ہی اس کی پستی ہے

فغانِ نیم شبی مانگتا ہے یہ بے دیں


نظامِ نو کی خبر دے رہا ہے اِک چوہا

کہ جیسے شیر کوئی کارواں میں ہے ہی نہیں


بڑی سر یلی اذانوں میں محو ہیں سارے

اذانِ حُر بھی سُنی آپنے یہاں کہ نہیں


ہے خود تو جھُوٹا مگر بات کہہ رہا ہے سچ

بڑا مکار ہے یہ بیچتا ہے دیںِ مبیں


غلام جان کے اِن بے کسی کے ماروں کو

سنوارتا ہے یہ دُنیا بگاڑتا ہے دیں


اِمام بننے کا ہے شوق اِس کو مدّت سے

بنا ہے درسِ نظامی کے آسماں کی زمیں


خدا کی راہ میں جو مرگیا شہید ہُوا

جناب راہِ خدا آپ کو ملی کہ نہیں


خدا کے شکر میں بھرتا ہے پیٹ کو اِتنا

کہ جیسے پیٹ ہو کچھوے کا ، واہ رے رہبرِ دیں


حدیثِ قدسی کے ہراز سے یہ ہے آگاہ

مِلا نہ گوشہ کوئی ہوگیا ہے کوٹھی نشیں


یہ ہیں غزالئ دوراں کہ رومئ ملّت

کہ دام لے کے جو بولیں تو جھُوم جائے زمیں


مکان اِس کے ابھی چارپانچ چھ ہونگے

مگر یہ رکھتا ہے بارہ اماموں پر بھی یقیں


ملے جو کثرتِ دولت بیاں کرے وحدت

غریب لوگ بلائیں تو اس کو وقت نہیں


بیانِ تقویٰ توکلّ طہارت و توبہ

بغیر دام کے بولے تو یہ کہاں کا امیں


غریب بھائی تمھاری ہی ہوش ختم ہوئی

تمھارے خون کا ہے طالب یہ عاققبت کا نہیں


نمازادا رپہ ہوگی یا کَربلا میں ادا

کہ اب چمکنے کو ہے رازِ عاشقی کا نگیں


جبینِ شوق سے خود ڈھونڈ آستانہ حُسن

صنم خیال کے سب توڑ دو کہ وقت نہیں


یہ کون بول رہا ہے نہ پوچھ واصِفؔ سے

کہ وہ بیچارہ تو کاتب ہے رازدار نہیں

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- شبِ راز

دیگر کلام

ؑرہبر کارواں حسینؑ ‘ رہر و ِبے گماں حسین

قلم کی تاب کہاں کہ کرے بیانِ غم

السّلام اے گنج بخشِؒ فیضِ عالم السّلام

داتاؒ کے غلاموں کو ا ب عید منانے دو

ہے دل میں عشقِ نبی کا جلوہ ‘ نظر میں خواجہ ؒ سما رہے ہیں

کرم کے آشیانے کی کیا بات ہے

وہ دل ہی کیا جِس میں سمویا نہیں حسین

پی جو لیتے عباس پانی کو

حسین سارے جہان اندر محبتاں دا سفیر توں ایں

اِسلام دے عظیم مہاری نُوں ویکھ کے