میں پیرِ باولی کو بھلا کیسے داد دوں

میں پیرِ باولی کو بھلا کیسے داد دوں

میری بساط کیا میں تعارف میں کچھ کہوں


مطلوب جن کا رب کی رضا اور بندگی

عشق نبی ؐسے اِن کی عبارت ہے زندگی


ہر راحتِ حیات کو بس دیں پہ واردیں

پھر بھی خود احتسابی میں ہر وقت گم رہیں


ہر لفظ نورِ معرفت ، ہر بات معتبر

الفاظ ہیں کہ سوز میں لپٹے ہوئے گہر


آقاؐ کے در کی چاکری ہے آنکھ کا خمار

ہر ریشہِ وجود میں بستا ہے اُنؐ کا پیار


ہاتھوں میں ہاتھ جب بھی کسی کو عطا کیا

ایسا لگے کہ سارا کچھ اُس پہ لٹا دیا


بیٹھے رہیں تو جسم مرا وجد میں رہے

بولیں اگر تو روح کو اِک چین سا ملے


یہ رونقیں جہان کی دُنیا کی چاہتیں

اُن کے قدوم میں کبھی لغزش نہ لاسکیں


ذکرِ خدائے پاک سے بس لو لگائی ہے

یہ ذکر ہی تو زندگی بھر کی کمائی ہے


وقفِ ثنائے رحمتِ عالم ہے اُن کی ذات

آقاؐ کی نسبتوں سے ہے ہر نسبتِ حیات


سجدے میں ہے جبین تو جذبے قیام میں

کیفیتیں بیان ہوں کیسے کلام میں


لب پہ دُعا ہے مولا مرے جو مجھے دیا

میرے ہر ایک صاحبِ نسبت کو ہو عطا


اب پائوں میں بھی روشنی اِس آفتاب سے

نورِ شعور بھی ملے اِن کے نصاب سے


نظروں میں مستقل رہوں رفعت نواز کی

بیعت نصیب ہو مجھے اِن کے گداز کی


گلشن یہ باولی کا ہمیشہ ہرا رہے

کاسہ شکیلؔ فیض سے میرا بھرا رہے

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

سبطِ سرکارِؐ دوعالم کا کہاں ثانی ہے

کیسی عظمت پر ہیں فائز اُمہات المومنینؓ

دَرِ زہراؓ کا ہو جتنا بھی ادب تھوڑا ہے

سرزمینِ باولی فیضان ہی فیضان ہے

خواجہِ خواجگاں رہبرِ رہبراں

میں سو جاتا ہوں کر کے گفتگو صدیقِ اکبر کی

بابا ہیں ترے شاہِ عرب سیدہ زینب

امام غوث اولیاء کے مقتدا علی علی

لبِ رسول کی دعا حسین تھا حسین ہے

دیارِ خلد میں جاہ و حشم حسین کا ہے