سبطِ سرکارِؐ دوعالم کا کہاں ثانی ہے

سبطِ سرکارِؐ دوعالم کا کہاں ثانی ہے

جیسا منصب ہے بڑا ویسی ہی قربانی ہے


ایک اظہارِ’’ فنا فی اللہ‘‘ ہے سجدا تیرا

منزلِ عشق تو آقا تری پیشانی ہے


ہر حوالہ ہی ترا ایک سند ہے آقا

ہر زمانہ ہی ترا عہدِ ثنا خوانی ہے


آلِ اطہار کے خیمہ میں ہے بس نور ہی نور

رُخِ باطل پہ فقط وحشت و ویرانی ہے


لشکرِ ظلم کو عبرت کا نشاں کرڈالا

تیر ے کردار کی ہردور میں سلطانی ہے


سر کٹاتے ہیں بصد ناز وفا کے پیکر

کیسا اخلاص ہے کیا جذبہِ ایمانی ہے


گر حسینی ہو تو پھر دین سے دوری کیسی

روحِ شبیرؓکو اس بات پہ حیرانی ہے


عشق کب دائرہِ عقل میں آتا ہے شکیلؔ

حق نے باطل کی کہاں آج تلک مانی ہے

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

بنا جو عزم کی پہچان حق کے دیں کیلئے

قرآن کے پاروں پہ لہو جس کا گرا ہے

جنابِ شیرِخدا کے قدموں میں سروری ہے

بیاں ہو کس طرح شانِ صحابہؓ

رب کے محبوب کے دلبر ہیں حسنؓ

کیسی عظمت پر ہیں فائز اُمہات المومنینؓ

دَرِ زہراؓ کا ہو جتنا بھی ادب تھوڑا ہے

سرزمینِ باولی فیضان ہی فیضان ہے

خواجہِ خواجگاں رہبرِ رہبراں

میں پیرِ باولی کو بھلا کیسے داد دوں