جنابِ شیرِخدا کے قدموں میں سروری ہے

جنابِ شیرِخدا کے قدموں میں سروری ہے

اوران کی چاہت مرے مقدر کی روشنی ہے


درِ سخا سے علوم سارے ہی بٹ رہے ہیں

ہر اِک فراست یہاں مؤدب کھڑی ہوئی ہے


یہ ان کی تلوار پر ازل سے لکھا ہوا ہے

ترے مقابل ہر ایک طاقت کی بے بسی ہے


خدائے واحد نے اپنے پردے ہٹا دئیے ہیں

تمہارے سجدے بتا گئے ہیں یہ بندگی ہے


جہاں میں کربل سا ظلم ہوتا کبھی نہ دیکھا

ترے گھرانے کا شیوہ لیکن بہادری ہے


تمہاری سیرت کے سرورق پر یہی لکھا ہے

کہ حکمِ آقاؐ کے بعد سب کچھ ہی ملتوی ہے


جو نامِ مولا علیؓ کو سن کر نہ جھوم اُٹھے

یہ اُس کے اندر کی مفلسی ہے یہ تیرگی ہے


وہ جب کہیں گے شکیلؔ مانگو بس اتنا کہنا

کہ میری حسرت ترے گدائوں کی نوکری ہے

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

نگاہِ لطف سوئے خادمانِ اولیاء گاہے

فاصلوں کو خدارا مٹا دو جالیوں پر نگاہیں جمی ہیں

جنابِ صدیق ؓکے ہماری فہم سے ارفع مقام بھی ہیں

بنا جو عزم کی پہچان حق کے دیں کیلئے

قرآن کے پاروں پہ لہو جس کا گرا ہے

بیاں ہو کس طرح شانِ صحابہؓ

رب کے محبوب کے دلبر ہیں حسنؓ

سبطِ سرکارِؐ دوعالم کا کہاں ثانی ہے

کیسی عظمت پر ہیں فائز اُمہات المومنینؓ

دَرِ زہراؓ کا ہو جتنا بھی ادب تھوڑا ہے