قلت کا کچھ گلہ ہے نہ شکوہ کمی کا ہے

قلت کا کچھ گلہ ہے نہ شکوہ کمی کا ہے

صدقہ ہمارے کاسے میں ابنِ علی کا ہے


یہ جنگِ اقتدار نہیں جنگِ کربلا

یہ معرکہ حفاظتِ دینِ نبی کا ہے


پھر آ گئی ہیں ماہِ محرم کی ساعتیں

آنکھوں میں پھرفضاؤں کی موسم نمی کا ہے


صدیاں گزر گئیں مگر اب بھی فرات کو

غم حضرتِ حسین کی تشنہ لبی کا ہے


پھوٹی تھی کربلا میں شہادت کی جو کرن

ممنون ہر چراغ اسی روشنی کا ہے


شاہِ امم کے در کی زیارت تو ہوگئی

ارماں درِ حسین پہ اب حاضری کا ہے


مجھ کو بھی کربلائے معلی نصیب ہو

یارب یہ استغاثہ غلامِ علی کا ہے


زندہ ہےدم سےآپ کے دنیا میں یا حسین!

اسلام کی رگوں میں لہو آپ ہی کا ہے


تیغوں کے سائے میں کہیں آیا نہیں نظر

شبیر ! جیسا رنگ تری بندگی کا ہے


محشر میں یا حسین ! اسے بھی نباہنا

یہ بے نوا شفیقؔ بھی تو آپ ہی کا ہے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

نہ خوف ہے نہ کوئی اضطراب مولا علی

لختِ جگر ہے سب سے چہیتی ہے فاطمہ

جب سے لبوں پہ نام جنابِ حسن کا ہے

لکھوں تو کیسے لکھوں میں مدحت تری حسین

خون آلود تن حسین کا ہے

وفا پرستوں میں ننھا پسر حسین کا ہے

دین کے سارے ضابطے شبیر

جس کے سرپر مصطفےکادستِ شفقت وہ حسین

عاشور کا ڈھل جانا، صغراؑ کا وہ مرجانا

وہ حقیقی مردِ مومن، پیکرِ عزم و ثبات