سرکارِ دو جہاں کا نواسہ حسین ہے

سرکارِ دو جہاں کا نواسہ حسین ہے

بابِ اثر پہ ایک دعا سا حسین ہے


تقسیم کر رہے ہیں جو کوثر کے جام وہ

کیسے کہے گا کوئی کہ پیاسا حسین ہے


جو نفسِ مطمئنہ کی تصویرِ عین ہے

اسرارِ حق سے خوب شناسا حسین ہے


قربانیٔ حسین ہے بنیادِ لا الہ

دینِ محمدی کا اثاثہ حسین ہے


کرتے ہیں عاصیوں کی جو امداد ہرگھڑی

بے چارگی میں سب کی ہی آسا حسین ہے


تسکین ان کی یاد سے ملتی ہے ناز کو

ہر آن زندگی میں دلاسہ حسین ہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

بےمثل مصطفیٰ سے الفت ہے مرتضیٰ کی

ہیں نُورِ چشمِ سیّدِ ابرار فاطمہؓ

آپ سب سے جدا سیدہ عائشہؓ

سوئی تیری گود میں زہرا کی آل اے کربلا

پرتوِ احمدِ مختار حسین ابنِ علی

مرے دل میں سمائی ہے عقیدت غوثِ اعظم کی

میراں غوث قطب ابدال پیر زمانے دے

نصیب سوئے ہوئے جگاؤ کہ یہ ہے صابر پیا کی محفل

قدم کی جا جبیں رکھ کر جو اس کوچہ میں آئے گا

ہم وسیلے کے قائل ہیں سارے