ترے در کا ہُوں میں منگتا معین الدین اجمیری
کرم ہو مجھ پہ یا خواجہ معین الدین اجمیری
نگاہِ فیض سے تیرے تو نوّے لاکھ نے خواجہ
پڑھا ہے دل سے الاللہ معین الدین اجمیری
قدم جب سے لیا ہے تُو نے سر پر غوثِ اعظم کا
ہُوا ذی شان ہے ُرتبہ معین الدین اجمیری
نہیں کُچھ ہند پر موقُوف بلکہ ساری دنیا میں
ہے جاری فیض کا دریا معین الدین اجمیری
ترے در کی سخاوت کا زمانے بھر میں شہرہ ہے
ملے مجھ کو بھی اِک ٹکڑا معین الدین اجمیری
گدا کیا تیری چوکھٹ پر شہنشاہِ زمانہ بھی
جُھکا دیتے ہیں سر اپنا معین الدین اجمیری
بھلا میں ِکس لیے در در کی جاکر ٹھوکریں کھاؤں
تیرے ٹکڑوں پہ ہُوں پلتا معین الدین اجمیری
دُکھوں نے آکے گھیرا ہے غموں کا بھی بسیرا ہے
کرم خواجہ کرم شاہا معین الدین اجمیری
مجھے اجمیر آنا ہے مقدر کو جگانا ہے
عطا ہو جلد یہ مُژدہ معین الدین اجمیری
میرے دل میں تمنا ہے کبھی تو دیکھ لُوں آکر
وہ روضہ دِلنشیں پیارا معین الدین اجمیری
تمنّائے دلِ مرزا شہا منظور ہو جائے
میسر ہو اِسے جلوہ معین الدین اجمیری
شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری
کتاب کا نام :- حروفِ نُور