وِردِ زباں ہے میرے وظیفہ علی علی

وِردِ زباں ہے میرے وظیفہ علی علی

گنجینئہ حیات ہے مولیٰ علی علی


حیدر ہے بُو تُراب ہے وہ رب کا شیر ہے

کہتا ہے اُن کو سارا زمانہ علی علی


بابا حسن حسین کے ہیں زوجِ فاطمہ

ہیں گلشنِ نبی کا اُجالا علی علی


خیبر کا جیسے باب اُکھاڑا تھا آپ نے

دیجے گا ایک کفر کو جھٹکا علی علی


مرحب ہر ایک دور کا لرزاں ہے آپ سے

ہے دبدبہ وہ نام کا مولیٰ علی علی


مشکل بھی مشکلوں میں گرفتار ہوگئی

رنج و الم میں جس نے پکارا علی علی


جتنے بھی صوفیا کے ہیں ذی شان سلسلے

کہتا ہے اُن کا جھوم کے شجرہ علی علی


تسکینِ قلب وجان ہے مولیٰ علی کانام

اہلِ نظر کا قبلہ و کعبہ علی علی


ذکرِ علی و دیدِ علی بِا الیقیں ثواب

چمکے گا میرا کہہ کے یہ نامہ علی علی


گھر آئے گا نہ کوئی کبھی خارجی مرے

دروازے پر جو نام ہے لکھا علی علی


کشتی مری بھنور میں ہے طوفان کا ہے زور

لطف و کرم کا کیجے اشارہ علی علی


نامِ علی ہے آج تو جانِ مشاعرہ

ہوتا ہے دھوم دھام سے چرچہ علی علی


الفت ہے چار یار کی مرزا کے قلب میں

کہتا ہے اس کا سارا گھرانا علی علی

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

صفحہِ زیست پہ تحریرِ شہادت چمکی

خانۂ کعبہ پہ میری جب پڑی میری نظر

عاشقِ خیرالوریٰ صدیق ہیں

رحمتِ کبریا عمر فاروق

دین کی پہچان عثمانِ غنی

رسولِ پاک کے پیارے صحابہ

ہم تو دیوانے ہیں غوثِ پاک کے

ترے در کا ہُوں میں منگتا معین الدین اجمیری

اک نظر مجھ پر ڈالو اے میرے داتا پیا

وفا کا  باب  ابد  تک   پڑھا گئے ہیں حسین