زبان حال سے کہتی ہے کربلا کی زمیں

زبان حال سے کہتی ہے کربلا کی زمیں

خدا کے بندوں پہ کیوں تنگ ہے خدا کی زمیں


رہیں ادب کے تقاضے ہمیشہ پیشِ نظر

فلک جناب ہے خاصانِ باصفا کی زمیں


دہانِ ذرّہ جہاں کھول دے زبانِ سوال

ہزار گنج بکف ہے وہاں ، عطا کی زمیں


فلک کی آنکھ میں ترسیلِ گرد سے یہ کھُلا

جوابِ ظلم پہ مجبور ہے ، خدا کی زمیں


مزا تو جب ہے کہ مَیں سر کے بل وہاں پہنچوں

نہ آئے زیرِ قدم ، تیرے نقشِ پا کی زمیں


یہاں بھی قافلہء عرش سیر اُترا تھا

یہ کہہ رہی ہے ترے شہرِ جاں فزا کی زمیں


علی نے جب سے لقب بُو تراب کا پایا

کمالِ شوق سے ہے وجد میں ، خدا کی زمیں


کسی کی آخری ہچکی نہ تھی ، قیامت تھی

ہو جیسے آج بھی سکتے میں ، کربلا کی زمیں


ہوائے دامنِ زھرا تلاش کرتی ہے

کہاں وہ پھُول چھُپائے ہیں ؟ نَینوا کی زمیں


صد آفریں تجھے اے شوق ! کیا نکالی ہے

بیانِ کرب و بلا کے لیے ، بلا کی زمیں


کبھی پنپ نہیں سکتا نصیؔر ! نخلِ اثر

نہ ہو جو آبِ ندامت سے تر ، دُعا کی زمیں

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

عارف بود کسے کہ دلش نسبتِ وِلا

سِبطِ شہِؐ دیں نازِ حسن پیکرِ تنویر

حُسین گُلشنِ تطہیر کی بہارِ مُراد

لاکھ نالہ و شیون ایک چشمِ تر تنہا

لافِ نَبرد سبطِ پیمبرؐ کے سامنے

تھا مِہر صِفَت قافلہ سالار کا چہرہ

ہو گیا کس سے بھرا خانہء زہرا خالی

آگ سی دل میں لگی آنکھ سے چھلکا پانی

مثلِ شبّیر کوئی حق کا پرستار تو ہو

نظر نواز ہیں دل جگمگا رہے ہیں حسین