مثلِ شبّیر کوئی حق کا پرستار تو ہو

مثلِ شبّیر کوئی حق کا پرستار تو ہو

دورِ حاضرمیں کسی کا وہی کردار تو ہو


ابنِ حیدر کی طرح پیکرِ ایثار تو ہو

ایسا دُنیا میں کوئی قافلہ سالار تو ہو


آج بھی گرمیء بازارِ شہادت ہے وہی

کوئی آگے تو بڑھے ، کوئی خریدار تو ہو


ظلم سے عُہدہ بر آ ہونے کی ہمّت نہ سہی

کم سے کم حق کا دل و جان سے اقرار تو ہو


عین ممکن ہے کہ سو جائیں یہ سارے فتنے

ذہن انساں کا ذرا خواب سے بیدار تو ہو


میرا ذمّہ ، ہمہ تن گوش رہے گی دُنیا

ڈھنگ کی بات تو ہو، بات کا معیار تو ہو


عافیت کے لیے درکار ہے دامانِ حسین

ظلم کی دُھوپ میں یہ سایہء دیوار تو ہو


دل میں ماتم ہے ، تو آنکھوں میں ہے اشکوں کا ہجوم

میرے مانند کوئی اُن کا عزادار تو ہو


عین ممکن ہے نصیرؔ! آلِ محمدؐ کا کرم

کوئی اِس پاک گھرانے کا نمک خوار تو ہو

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

لافِ نَبرد سبطِ پیمبرؐ کے سامنے

زبان حال سے کہتی ہے کربلا کی زمیں

تھا مِہر صِفَت قافلہ سالار کا چہرہ

ہو گیا کس سے بھرا خانہء زہرا خالی

آگ سی دل میں لگی آنکھ سے چھلکا پانی

نظر نواز ہیں دل جگمگا رہے ہیں حسین

اللہ ، اہلِ بیتِ پیمبرؐ کے ساتھ ہے

غمِ شبّیر کا یُوں دل پہ اثر ہے کہ نہیں ؟

رسمِ شبّیر جگانے کے لیے

حسین کا ہو کہیں ذِکر کوئی بات چلے