اللہ ، اہلِ بیتِ پیمبرؐ کے ساتھ ہے
اسلام کا وقار اِسی گھر کے ساتھ ہے
جو شخص نُورِ دیدہء حیدر کے ساتھ ہے
روزِ جزا وہ شافعِؐ محشر کے ساتھ ہے
پیاسے نہ ہم رہیں گے قیامت میں دیکھنا
اپنا بھی ربط ساقیءؐ کوثر کے ساتھ ہے
رہتا ہے رات دن غمِ ذُرِّیّتِ رَسولؐ
سودا شروع سے یہ، مِرے سَر کے ساتھ ہے
آلِ نبی ؐ کو ذاتِ نبی ؐ سے جُدا نہ جان
ہر موج کا وجود سمندر کے ساتھ ہے
وہ اک مکاں کہ جس کا مکیں بابِ علم تھا
اپنا تو رابطہ ہی اُسی گھر کے ساتھ ہے
آلِ نبیؐ کے درد سے مَیں بھی جُدا نہیں
میرا نصیب ، اُن کے مقدّر کے ساتھ ہے
لاکھوں شقی اُدھر ہیں اِدھر اِک حُسین ہیں
کانٹوں کی نوک جھوک گُلِ تر کے ساتھ ہے
کس پر کھُلے گا معرکہ کربلا کا راز
یہ وہ معاملہ ہے ، جو داوَر کے ساتھ ہے
تنہا اُسی کے نام سے دُشمن تھا بد حواس
اب کیا کرے ، حُسین بہتّر کے ساتھ ہے
سچ مچ ہو دل میں غم تو بھر آتی ہے آنکھ بھی
اشکوں کا سلسلہ دلِ مضطر کے ساتھ ہے
اُس ذاتِ پاک کا ہُوں دل و جاں سے میں غلام
دعوٰی غلط نہیں ہے، مگر ڈر کے ساتھ ہے
دُشمن کی گُفتگو میں کہاں خیر کی جھلک
جو بات ہے شریر کی ، اِک شر کے ساتھ ہے
بھیجوں یزیدِیَت پہ نہ کیوں لعنت اے نصیؔر
یہ دُشمنی ہے، اور مِرے گھر کے ساتھ ہے
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- فیضِ نسبت