نظر نواز ہیں دل جگمگا رہے ہیں حسین
کہ شمعِ بزمِ رسولِؐ خدا، رہے ہیں حسین
رِضا و صبر کے جوہر دکھا رہے ہیں حسین
ستم گروں میں گھرے مسکرا رہے ہیں حسین
خدا کی راہ میں خود کو لُٹا رہے ہیں حسین
وہ کربلا کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں حسین
حجاب جو ہوئے حائل ، اُٹھا رہے ہیں حسین
جو اصل دیں ہے ، وہ ہم کو دکھا رہے ہیں حسین
یزید ، راندہء خلق و مُعذَّبِ خالق
نگاہِ کون و مکاں میں سما رہے ہیں حسین
سمجھ سکے نہ شقی ، کربلا کے میداں میں
خدا رسولؐ کی جانب بُلا رہےہیں حسین
بہا کے اپنا لہو نینوا کے ذرّوں میں
زمیں کو عرش کا ہمسر بنا رہے ہیں حسین
نہ کیوں بپا ہو قیامت کا شور خیموں میں
کہ لاشے قاسم و اکبر کے لا رہے ہیں حسین
شعور و عقل سے عاری ہیں شام کے حاکم
وگرنہ حق ہے وہی، جو بتا رہے ہیں حسین
مِٹا کے خود کو گھرانے کو ساتھ والوں کو
نصیبِ اُمّتِ عاصی ، جگا رہے ہیں حسین
لرز نہ جائے بھَلا کیوں زمین مقتل کی
سَر اپنا سجدہ حق میں کٹا رہے ہیں حسین
ہر ایک غم کا مداوا حسین کا غم ہے
ہر ایک دُکھ میں مِرا آسرا ، رہے ہیں حسین
خیال آیا تھا اُن کا کہ دل ہُوا روشن
نصیؔر سَر تو اُٹھا ؤ وہ آرہے ہیں حسین
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- فیضِ نسبت