حسین کا ہو کہیں ذِکر کوئی بات چلے
ہماری آنکھوں سے اشکوں کی اک برات چلے
فلک پہ کیوں نہ بھلا کربلا کی بات چلے
غمِ حسین میں تارے تمام رات چلے
مجسَّم اُسوہ خیرؐ الانام تھے شبّیر
رضائے حق کے اشاروں پہ تاحیات چلے
مِلی نہ بُوند بھی پانی کی تشنہ کاموں کو
ہوائے قہر کے جھونکے سرِ فرات چلے
حسین حکم، الہٰی سے کربلا آئے
بساط اُلٹ دی ، ہوئی دُشمنوں کو مات ، چلے
قیام اُن کا ہُوا منزلِ مشیّت پر
وہ جن کے ایک اشارے پہ کائنات چلے
چلا ہے دُھوم سے یُوں قافلہ شہیدوں کا
وفورِ شوق میں جیسے کوئی برات چلے
حسین کی صفِ اعدا میں تھی یہ شانِ خِرام
ہجومِ کفر میں جس طرح نُورِ ذات چلے
وفا کا نام مٹانے سے مِٹ نہیں سکتا
ہزار چال یہ دُنیائے بے ثبات چلے
یزیدِ عصر کے آگے کھڑے ہیں سب خاموش
حسین ہی جو چلائیں تو کوئی بات چلے
دبا سکا نہ کبھی حق کو ، شور باطل کا
نہ کوئی گھات چلی ہے نہ کوئی گھات چلے
نصیؔر ! گوش بر آواز عرش و فرش ہوئے
اب انجمن میں حسین و حسن کی بات چلے
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- فیضِ نسبت