غمِ شبّیر کا یُوں دل پہ اثر ہے کہ نہیں ؟

غمِ شبّیر کا یُوں دل پہ اثر ہے کہ نہیں ؟

جو بھی آنسو ہے وہ مانندِ گُہَر ہے کہ نہیں ؟


دل میں کردارِ حسینی کا گُزر ہے کہ نہیں ؟

شیوہء صبر و تحمُّل پہ نظر ہے کہ نہیں ؟


راہِ حق میں جو بہ صد شوق لُٹا دے گھر بار

اُس مسافر کے لئے خُلد میں گھر ہے کہ نہیں ؟


جس نے قُربان کیا خود کو رضائے حق پر

وہ بشر ، خَلق میں مافوقِ بشر ہے کہ نہیں ؟


علم کے شہر میں جس بِن ہے رسائی مُشکل

دیکھ اُس شخص کو ، وہ علم کا در ہے کہ نہیں ؟


راکبِ دوشِ نبیؐ ، آلِ عبا، پُورِ بتول

یہی شبّیر ہیں ، ظالم کو خبر ہے کہ نہیں ؟


آج تک سوگ میں ہے ، دشت کا ذرّہ ذرّہ

کربلا اُن کے لیے خاک بہ سَر ہے کہ نہیں ؟


ختم کب ہوگی یہ آزار و جفا کی ظُلمت

یومِ عاشوُر! تیری شب کی سحر ہے کہ نہیں ؟


حلقِ معصوم کو کیوں تیر سے چھیدا تُو نے

حُرمُلَہ ! کچھ تجھے اللہ کا ڈر ہے کہ نہیں ؟


کربلا میں ہے شہیدوں کا لہو نُور فگن

رُخ زمانے کی نگاہوں کا اُدھر ہے کہ نہیں ؟


میرے دل میں ہیں مکیں سبطِ نبیؐ کے جلوے

رشکِ فردوس، نصیؔر ! آج یہ گھر ہے کہ نہیں ؟

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

ہو گیا کس سے بھرا خانہء زہرا خالی

آگ سی دل میں لگی آنکھ سے چھلکا پانی

مثلِ شبّیر کوئی حق کا پرستار تو ہو

نظر نواز ہیں دل جگمگا رہے ہیں حسین

اللہ ، اہلِ بیتِ پیمبرؐ کے ساتھ ہے

رسمِ شبّیر جگانے کے لیے

حسین کا ہو کہیں ذِکر کوئی بات چلے

ابنِ حیدر کی طرح پاسِ وفا کس نے کیا ؟

ابنِ حیدر کی طرح پاسِ وفا کس نے کیا ؟

جنہیں نصیب ہُوئی تن سے سَر کی آزادی