اپنے محبوب کے ،عِشق میں ڈوب کے

اپنے محبوب کے ،عِشق میں ڈوب کے ‘ مَیں کمالات ادراک دیکھا کروں

اِس جہاں سے سفر ، کر گئے وہ مگر ، اُن کو زندہ تہِ خاک دیکھا کروں


نقشِ کونین میں رنگ اُنھوں نے بھر ے ‘ اُن کا سایہ فصیل ِ عدم سے پرے

اُن کی آہٹ کے دریا میں بہتے ہُوئے ‘ وقت کے برگ و خاشاک دیکھا کروں


اُن کی معراج اِنساں کی معراج تھی، اُن کے ماتھے کی ہر اِک شکن تاج تھی ،

اُن کی دہلیز پر‘ رکھ دیا جس نے سر ، اُس کے قدموں میں افلاک دیکھا کروں


ذہن جب اُن کی یادیں پرونے لگے ، آنّسووں میں تصوّر بھگو نے لگے

رُوح میں اِک چراغاں سا ہو نے لگے ، تن پہ خوشبو کی پوشاک دیکھا کروں


ایسا آئینہ ہوں عِشقِ سرکار کا ، اس طرف جس میں منظر ہے اُس پار کا

دیکھنا چاہوں جب ، عکسِ شاہِ عرب ‘ اپنے ہی زخم کے چاک دیکھا کروں


فکرِ بخشش نہیں ہے مظفّؔر مجھے ، بخش دے گا خُدا روزِ محشر مُجھے

بس یہ ڈھونڈا ہے حل‘ مَیں غریبِ عمل ، سُوئے سُلطان لولاک دیکھا کروں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- کعبۂ عشق

دیگر کلام

مَیں ہُو ں اُمّید وارِ شہِ دوجہاں

اے زمینِ عرب ، آسمانِ ادب

میری ہر سانس چمکتی ہے

خُدا کرے یوں بھی ہو کہ اب

نبی کا پیار سمندر

دیارِ شب کے لیے قریہء سحر کے لیے

میرے اندر فروزاں حضورؐ

عیدِ ولادِ مصطفےٰ سارے منانے آئے ہیں

سرورِ دو جہاں

حیَّ علیٰ خَیْرِ الْعَمل