چل چل مرے دل طیبہ کی طرف آقا کا بلاوا آیا ہے

چل چل مرے دل طیبہ کی طرف آقا کا بلاوا آیا ہے

سرکار کے قدموں میں سر ہو وہ وقت سہانا آیا ہے


محشر میں رسول و نبی سارے اور ان کی امتیں حیراں تھیں

سر تاج شفاعت کا پہنے تب حشر کا دولہا آیا ہے


دنیائے عرب پر چھائے تھے شرک اور جہالت کے بادل

توحید کا اجیارا لے کر وہ نور سراپا آیا ہے


آقا نے اپنے غلاموں کو اچھے اخلاق کا درس دیا

جو کہا وہ کر کے دکھلایا کیا اچھا ستھرا آیا ہے


بغدادی عمامہ باندھے ہوئے میں طیبہ نگر میں حاضر ہوں

سرکار بس اتنا فرمادیں مرے غوث کا شیدا آیا ہے


جس حجرے میں اعلیٰ حضرت شہ آلِ رسول کے ہاتھ بکے

میرے ہی حصے میں ان کا وہ حجرہء کم جا آیا ہے


لے چلے فرشتے نظمی کو دوزخ کی طرف تو اس نے کہا

رک جاؤ ذرا دیکھو تو سہی وہ جنت والا آیا ہے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

کس کے چہرے میں یہ خورشید اتر آیا ہے

ٹھہرو ٹھہرو رہ جاؤ یہیں کیوں طیبہ نگر سے دور چلے

دل میں عشقِ مصطفی کا رنگ بستا جائے ہے

مدینے کا سفر ہے اور نگاہوں میں یہ حسرت ہے

یارب الفت سرور دے

خاکِ طیبہ مرے سینے سے لگادی جائے

حق اللہ کی بولی بول

جس سے ملے ہر دل کو سکوں

باطل کے جب جب بدلے ہیں تیور

شمس و قمر حق برگ و شجر حق