مدینے کا سفر ہے اور نگاہوں میں یہ حسرت ہے

مدینے کا سفر ہے اور نگاہوں میں یہ حسرت ہے

نبی کے در پر ہم کو موت آجائے تو نعمت ہے


وہ محبوبِ خدا جن کی ورائے عرش شہرت ہے

انہیں کی شان میں قرآن کی عینی شہادت ہے


محمد ہی سے پہچانا ہے ہم نے ربِ اکبر کو

نشانِ حق تعالیٰ ان کی ذاتِ والا برکت ہے


فرشتے جن کے تلووں سے لگائیں اپنی پیشانی

انہیں معراج کی صورت عطائے بامِ رفعت ہے


ادھر ہو امر بالمعروف، ادھر نہی عن المنکر

یہی اصلِ شریعت ہے یہی اصلِ طریقت ہے


وہ گنبد سبز نورانی ہے دھڑکن قلبِ مومن کی

نشانِ روضہء محبوب کی کیا پیاری رنگت ہے


جہاں میں مصطفیٰ والوں کے یہ انداز ہوتے ہیں

گریباں چاک ہیں لیکن سروں پر تاجِ عظمت ہے


حضور اچھے میاں کے در پہ میلہ ہے مریدوں کا

نظر ہو جائے مرشد کی ہر اک دل میں یہ حسرت ہے


سبق سیکھا ہے ہم نے حضرتِ نوری کے مکتب سے

فنا فی الشیخ ہو جانا ہی بنیادِ طریقت ہے


کبھی مرشد کے در پر پاؤں میں جوتا نہیں پہنا

مریدِ باصفا ہونا یہ شانِ اعلیٰ حضرت ہے


ہوئے نوری کے تو نوری بنے ہیں مفتیِ اعظم

بریلی، تجھ کو مارہرہ سے کیسی نوری نسبت ہے


وہ دیکھو سید العلما وہاں آرام فرما ہیں

کہ جن کے نام سے منسوب یہ سنّی جماعت ہے


غلامی شاہِ برکت کی جسے حاصل ہوئی نظمی

نظر میں ہیچ اس کے ساری دنیا کی حکومت ہے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

روحِ حیات عشقِ حبیبِ خدا میں ہے

وہ بختاور ہیں جن کو دم بدم یادِ خدا آئے

کس کے چہرے میں یہ خورشید اتر آیا ہے

ٹھہرو ٹھہرو رہ جاؤ یہیں کیوں طیبہ نگر سے دور چلے

دل میں عشقِ مصطفی کا رنگ بستا جائے ہے

یارب الفت سرور دے

چل چل مرے دل طیبہ کی طرف آقا کا بلاوا آیا ہے

خاکِ طیبہ مرے سینے سے لگادی جائے

حق اللہ کی بولی بول

جس سے ملے ہر دل کو سکوں