حرفِ مدحت جو مری عرضِ ہنر میں چمکا

حرفِ مدحت جو مری عرضِ ہنر میں چمکا

میرا ہر حرف زمانے کی نظر میں چمکا


دے گیا کتنے شرف ایک سیہ پتھر کو

ایک بوسہ جو ترے لب سے حجر میں چمکا


وجہِ شادابیٔ عالم ہے یہ رنگِ اخضر

ہر زمانے میں ہر اک برگِ شجر میں چمکا


واسطہ ان کا دیا صلِ علٰی پڑھتے ہوئے

میرا ہر حرفِ دعا بابِ اثر میں چمکا


کیسے ہو شہرِ مدینہ کی بلندی کا بیاں

جس کے ذرے کا بدن روئے قمر میں چمکا


خواب خواہش کے حسیں طاق پہ رکھا ہی رہا

لمعۂ یاد مرے شام و سحر میں چمکا


ٹوٹتے حوصلے اشفاق جواں ہونے لگے

گنبدِ سبز مری راہ گزر میں چمکا

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

آرزوئے جہاں رشکِ فاراں ہوا

جو نغمے نعت کے آنکھوں کو کر کے نم سناتے ہیں

کرم کریم کا اچھے سمے میں رکھتا ہے

سرِ نظارت رخِ مدینہ کہاں سے لاؤں

مہبطِ انوار ہے ان کا ٹھکانہ نور نور

اسمِ نبی آٹھوں پہر وردِ زباں رکھا گیا

بھر دیئے گئے کاسے، بے بہا عطاؤں سے

شاہِ خوباں کی جھلک مانگنے والی آنکھیں

وُجُودِ شاعرِ مِدحت پہ خوف ہے طاری

مہبطِ نور میں ہے نور سے ڈھالی جالی