مہبطِ انوار ہے ان کا ٹھکانہ نور نور

مہبطِ انوار ہے ان کا ٹھکانہ نور نور

کاش پھر سے دیکھ لوں وہ آستانہ نور نور


اک ہمیں چودہ صدی کے فاصلے سہنے پڑے

خوش مقدر تھے ملا جن کو زمانہ نور نور


اذنِ مدحت سے بڑی آسودگی بخشی گئی

مل گیا رزقِ سخن کا آب و دانہ نور نور


میری بھی فردِ عمل میں کچھ تو ہو بہرِ نجات

ہو عطا مدحت کا حرفِ جاودانہ نور نور


پرسشِ اعمال تو ہونی ہے محشر میں مگر

ہے میسر نعت گوئی کا بہانہ نور نور


فاطمہ، حسنین، زینب، عائشہ ،شیرِ خدا

سرورِ کونین کا سارا گھرانہ نور نور


کیوں نظر اشفاق دنیا کے مناظر پر ٹکے

دیکھ کر آیا ہوں وہ شہرِ یگانہ نور نور

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

مجھ غم زدہ پہ جود و کرم کر دیئے گئے

آرزوئے جہاں رشکِ فاراں ہوا

جو نغمے نعت کے آنکھوں کو کر کے نم سناتے ہیں

کرم کریم کا اچھے سمے میں رکھتا ہے

سرِ نظارت رخِ مدینہ کہاں سے لاؤں

حرفِ مدحت جو مری عرضِ ہنر میں چمکا

اسمِ نبی آٹھوں پہر وردِ زباں رکھا گیا

بھر دیئے گئے کاسے، بے بہا عطاؤں سے

شاہِ خوباں کی جھلک مانگنے والی آنکھیں

وُجُودِ شاعرِ مِدحت پہ خوف ہے طاری