ہو اگر مدحِ کف پا سے منور کاغذ

ہو اگر مدحِ کف پا سے منور کاغذ

عارضِ حور کی زینت ہو سراسر کاغذ


صفت خارِ مدینہ میں کروں گل کاری

دفتر گل کا عنادِل سے منگا کر کاغذ


عارضِ پاک کی تعریف ہو جس پرچہ میں

سو سیہ نامہ اُجالے وہ منور کاغذ


شامِ طیبہ کی تجلی کا کچھ اَحوال لکھوں

دے بیاضِ سحر اک ایسا منور کاغذ


یادِ محبوب میں کاغذ سے تو دل کم نہ رہے

کہ جدا نقش سے ہوتا نہیں دَم بھر کاغذ


وَرَقِ مہر اُسے خط غلامی لکھ دے

ہو جو وَصف رُخِ پُر نور سے اَنور کاغذ


تِرے بندے ہیں طلبگار تری رحمت کے

سن گناہوں کے نہ اے داورِ محشر کاغذ


لب جاں بخش کی تعریف اگر ہو تجھ میں

ہو مجھے تارِ نفس ہر خط مسطر کاغذ


مدحِ رخسار کے پھولوں میں بسا لوں جو حسنؔ

حشر میں ہو مِرے نامہ کا معطر کاغذ

شاعر کا نام :- حسن رضا خان

کتاب کا نام :- ذوق نعت

دیگر کلام

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

نہ مایوس ہو میرے دُکھ دَرد والے

نہیں وہ صدمہ یہ دل کو کس کا خیال رحمت تھپک رہا ہے

واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا

ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا

ہوں جو یادِ رُخِ پرنور میں مرغانِ قفس

ہم نے تقصیر کی عادت کرلی

یہ اِکرام ہے مصطفیٰ پر خدا کا

یا نبی یاد تری دل سے مرے کیوں جائے

بہر دیدار مشتاق ہے ہر نظر دونوں عالم کے سرکار آجائے