نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

اُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے


تمہارے دَر کے ٹکڑوں سے پڑا پلتا ہے اِک عالم

گزارا سب کا ہوتا ہے اِسی محتاج خانے سے


شب ِاَسرا کے دولھا پر نچھاوَر ہونے والی تھی

نہیں تو کیا غرض تھی اتنی جانوں کے بنانے سے


کوئی فردوس ہو یا خلد ہو ہم کو غرض مطلب

لگایا اب تو بستر آپ ہی کے آستانے سے


نہ کیوں اُن کی طرف اللہ سو سو پیار سے دیکھے

جو اپنی آنکھیں ملتے ہیں تمہارے آستانے سے


تمہارے تو وہ احساں اور یہ نافرمانیاں اپنی

ہمیں تو شرم سی آتی ہے تم کو منہ دکھانے سے


بہارِ خلد صدقے ہو رہی ہے رُوئے عاشق پر

کھلی جاتی ہیں کلیاں دِل کی تیرے مسکرانے سے


زمیں تھوڑی سی دیدے بہر مدفن اپنے کوچہ میں

لگا دے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے


پلٹتا ہے جو زائر اُس سے کہتا ہے نصیب اُس کا

ارے غافل قضا بہترہے یاں سے پھر کے جانے سے


بلالو اپنے دَر پر اب تو ہم خانہ بدوشوں کو

پھریں کب تک ذلیل و خوار دَر دَر بے ٹھکانے سے


نہ پہنچے اُن کے قدموں تک نہ کچھ حسن عمل ہی ہے

حسنؔ کیا پوچھتے ہو ہم گئے گزرے زمانے سے

شاعر کا نام :- حسن رضا خان

کتاب کا نام :- ذوق نعت

دیگر کلام

مَدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع

مبارک ہو وہ شہ پردے سے باہر آنے والا ہے

مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد اُن کا سوالی ہے

نگاہِ لطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیں

نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دنیا کے ساماں میں

نہ مایوس ہو میرے دُکھ دَرد والے

نہیں وہ صدمہ یہ دل کو کس کا خیال رحمت تھپک رہا ہے

واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا

ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا

ہو اگر مدحِ کف پا سے منور کاغذ