نگاہِ لطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیں

نگاہِ لطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیں

لئے ہوئے یہ دلِ بے قرار ہم بھی ہیں


ہمارے دَست تمنا کی لاج بھی رکھنا

تِرے فقیروں میں اے شہر یار ہم بھی ہیں


اِدھر بھی توسن اَقدس کے دو قدم جلوے

تمہاری راہ میں مشت غبار ہم بھی ہیں


کھلا دو غنچۂ دل صدقہ بادِ دامن کا

امیدوارِ نسیمِ بہار ہم بھی ہیں


تمہاری ایک نگاہِ کرم میں سب کچھ ہے

پڑے ہوئے تو سرِ راہ گزار ہم بھی ہیں


جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعل پاکِ حضور

تو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں


یہ کس شہنشہ والا کا صدقہ بٹتا ہے

کہ خسروؤں میں پڑی ہے پکار ہم بھی ہیں


ہماری بگڑی بنی اُن کے اِختیار میں ہے

سپرد اُنہیں کے ہیں سب کاروبار ہم بھی ہیں


حسنؔ ہے جن کی سخاوَت کی دُھوم عالم میں

انہیں کے تم بھی ہواِک ریزہ خوار ہم بھی ہیں

شاعر کا نام :- حسن رضا خان

کتاب کا نام :- ذوق نعت

دیگر کلام

مُعْطِیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہوگیا

مرحبا عزت و کمالِ حضور

مَدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع

مبارک ہو وہ شہ پردے سے باہر آنے والا ہے

مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد اُن کا سوالی ہے

نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دنیا کے ساماں میں

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

نہ مایوس ہو میرے دُکھ دَرد والے

نہیں وہ صدمہ یہ دل کو کس کا خیال رحمت تھپک رہا ہے

واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا