کبھی جو تجھ کو تَصوُّر میں نگہبان دیکھا

کبھی جو تجھ کو تَصوُّر میں نگہبان دیکھا

اس ایک لمحے پہ صدیوں کا سائباں دیکھا


ترے ہی نُور سے تھے اِکتساب کے چرچے

زمیں کو دیکھ کے جب سُوئے آسماں دیکھا


اِسی لیے تو ہے محبوبِ کبریا ترا نام

جہاں جہاں تجھے ڈھونڈا ‘ وہاں وہاں دیکھا


ہر اک صدی میں ‘ہر اک بزم میں ‘ہر اِک دِ ل میں

ترا پیامِ محبت رواں دواں دیکھا


مری حیات ہے گر تیری یاد کی تجسیم

تو ایسی یاد کا اک پل نہ رائیگاں دیکھا


سدا گواہ ہے تاریخ نوعِ انساں کی

کہ تجھ سا کوئی نہ ہمدردِ بیکساں دیکھا


نگاہ اُس کی ‘ حدِ لامکا ں بھی چِیر گئی

ترے ندیمؔ نے جب تیرا آستاں دیکھا

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

ہے اُن کے حُسن ِ مساوات کی نظیر کہاں

یہ حکایت ہے کوئی ‘ اور نہ کوئی افسانہ

کافر کو بھی شعورِ وجودِ خدا دیا

کفر نے رات کا ماحول بنا رَکھَّا ہے

وہی ماحول کی پاکیزہ لطافت دیکھی

کیا فکر ہے ۔۔۔ جب تم کو میسر ہیں محمدؐ

ہر ایک پھول نے مجھ کو جھلک دکھائی تری

سبھی عکس تیری شبِیہ کے

خالی کبھی ایوانِ محمدؐ نہیں رہتا

اُویسیوں میں بیٹھ جا