خوشا ہم سےنکمّوں کے سروں پر اُن کا سایہ ہے

خوشا ہم سےنکمّوں کے سروں پر اُن کا سایہ ہے

خُدا نے سب عطاؤں کا جنہیں قاسم بنایا ہے


کوئی اقصٰی تلک پہنچے ، کوئی سدرہ پہ جا پائے

مرے آقا کو "ادنٰی" تک شبِ اسرٰی بُلایا ہے


سجےہیں جن گھروں میں بھی درودِ پاک کے حلقے

تو رحمت کے فرشتوں نے وہیں میلہ لگایا ہے


رہا صلِّ علیٰ جن کا وظیفہ زندگانی میں

لحد کا ایک اِک گوشہ اُنہی کا جگمگایا ہے


ابوبکر و عُمر ہوں یا وہ عُثمان و علی آقا!

تری نسبت سے ہر کوئی زمانے بھر پہ چھایا ہے


گُناہوں کے سبب جب حشر میں ہم تھے سراسیمہ

وہاں تیری شِفاعت کا وسیلہ کام آیا ہے


جلیل اپنے مُقدّر پر بھلا کیسے نہ اِتراؤں

کہ مُجھ جیسے نکمّے کو بھی آقا نے بُلایا ہے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

کر تُو اِنساں کی خدمت دُعا دیں گے لوگ

عجب جشنِ بہاراں ہے

جسے عشقِ محمد میں تڑپتا دل نہیں ملتا

سبھی نے کوہِ رحمت پر سُنا خُطبہ شہِ دیں کا

مُقدّر گر ہوا یاور مدینے ہم بھی جائیں گے

بس شہرِ سرکار کو جانا اچھا لگتا ہے

کبھی وہ گُنبدِ خضرٰی مدینے جا کے دیکھیں گے

سروں پہ غم کے تنے ہیں بادل

ہُوا جو اہلِ ایماں پر وہی احسان باقی ہے

ثنائے مُصطفٰے کرنا یہی ہے زندگی اپنی