خواب میں در کھلا حضوری کا

خواب میں در کھلا حضوری کا

کیا وسیلہ بنا حضوری کا


اک کسک جب مجھے نصیب رہی

وہ بھی تھا مرحلہ حضوری کا


جیسے جیسے ہوئی پذیرائی

شوق بڑھتا گیا حضوری کا


کیف میں ڈوبتے گئے شب و روز

دَور ایسا چلا حضوری کا


روئے انور خیال سے گزرا

بابِ روشن کھلا حضوری کا


آنسوؤں کے چراغ جل اٹھے

جشن برپا ہوا حضوری کا


میرے دل میں جو داغِ حسرت تھا

بن گیا آئنہ حضوری کا


پیروی ہے حضورؐ کی یا ہے

سفرِ جانّفزا حضوری کا


ان کے در پر نصیب ہوتا ہے

حاضری میں مزا حضوری کا


لاکھ حائل غمِ زمانہ ہوا

کارواں کب رکا حضوری کا


ختم ہوگا نہ بعدِ محشر بھی

عملِ ارتقا حضوری کا


دل کا سب درد کر بیاں اس میں

نعت ہے سلسلہ حضوری کا


حاصل ِ زندگی سمجھ تائب

لمحہء دلکشا حضوری کا

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

سامنے ہیں سیّدِ ؐ ابرار اللہ الصمَد

ہر فصل میں پایا گلِ صحرا تروتازہ

نبیؐ کے حسن سے ہستی کا ہر منظر چمکتا ہے

آشنا انساں مقامِ کبریائی سے ہوا

اے ربِّ نوا ڈال دے دامن میں نئی نعت

جب ہے مرے آقاؐ کی عطا تازہ بتازہ

نعت بھی ہے صورتِ درود

سلام اے ابنِ عبداللہ، تحیاّت اے ابو القاسم

کس طرح چاند نگر تک پہنچوں

جس کا وجود رشد و ہدیٰ کا جمال ہے