ہر فصل میں پایا گلِ صحرا تروتازہ

ہر فصل میں پایا گلِ صحرا تروتازہ

جب دیکھا لگا قبہ خضرا تروتازہ


رہتا ہے شب و روز ہر اک منظرِ طیبہ

آراستہ پیراستہ اجلا تروتازہ


اندازِ حیات ان کا ہے قرآن سراپا

ہر آن ہے وہ جلوہ زیبا تروتازہ


انوار بداماں ہے بہر لحظہ وہ اسوہ

وہ گلشنِ رحمت ہے ہمیشہ تروتازہ


مفہوم کی خوشبو سے ہے مہکا ہوا ہر لفظ

ہے آ ج بھی ان کا لب و لہجہ تروتازہ


ہو جس کی اساس ان کی ولا ، ان کا تعلق

ہر دور میں رہتا ہے وہ جذبہ تروتازہ


میں لاکھ گرفتہ دل و آشفتہ نظر ہوں

رہتی ہے مگر ان کی تمنا تروتازہ


ہونٹوں پر ندا نعت کی ہے منزلِ شب میں

یوں رکھتا ہوں سامان سحر کا تروتازہ


موسم کی تمازت سے ہراساں نہیں تائب

سایے میں ہوں رحمت کے شگفتہ ، تروتازہ

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

دیارمحبوبؐ کے مسافر ہمیں دعاؤں میں یاد رکھنا

سر چشمہ عطا درِ خیرؐ الورای کی خیر

مدینے کی جنّت مرے سامنے ہے

حاضر ہے درِ دولت پہ گدا سرکارؐ توجّہ فرمائیں

سامنے ہیں سیّدِ ؐ ابرار اللہ الصمَد

نبیؐ کے حسن سے ہستی کا ہر منظر چمکتا ہے

آشنا انساں مقامِ کبریائی سے ہوا

اے ربِّ نوا ڈال دے دامن میں نئی نعت

خواب میں در کھلا حضوری کا

جب ہے مرے آقاؐ کی عطا تازہ بتازہ