کیا مرتبہ ہے اُس تن عنبر سرشت کا
جس نے کبھی گلہ نہ کیا سنگ و خشت کا
آزادیء حرم سے غلاموں کے دن پھرے
انسان پر وبال تھا دَیر و کنشت کا
کُنجِ حیات قعرِ جہنّم سے کم نہ تھا
آپؐ آئے زندگی پہ کھُلا در بہشت کا
اُس وقت درسِ امر و نہی آپؐ نے دیا
دُنیا کو جب شعور نہ تھا خوب و زشت کا
اُن سرکشوں کو آپؐ نے خیر آشنا کیا
احساس تک نہ تھا جنہیں اپنی سرشت کا
منشُورِ زندگی ہو کہ دستُورِ بندگی
عنواں ہیں آپؐ ہی تو ہر اک سر نوشت کا
لُطفِ نبیؐ بھی چاہئے فضلِ خدا کے ساتھ
اعمال پر مدار نہیں ہے بہشت کا
شاعر کا نام :- حنیف اسعدی
کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام