زباں پہ جب بھی مدینے کی گفتگو آئی

زباں پہ جب بھی مدینے کی گفتگو آئی

نگاہ گنبدِ خضرا کو جا کے چھُو آئی


کبھی ہُوا مری آنکھوں کی تشنگی کا علاج

کبھی کبھی مرے کانوں میں گفتگو آئی


کسی نے جب بھی کیا تذکرہ شمائل کا

تو میری آنکھوں میں وہ شکل ہُو بہُو آئی


کیا ہے دِل نے بہرحال اُنؐ کا ذکرِ جمیل

جو سانس آئی لبوں تک وہ با وضُو آئی


نفس نفس میں در آیا ہے آگہی کا شعُور

ہوائے کوئے مدینہ جو کُو بہ کُو آئی


وہ روشنی جو فضائے حرم میں دیکھی تھی

کبھی نظر کے کبھی دِل کے رُوبرو آئی


حنیفؔ خاکِ مدینہ ملی جو چہرے پر

تو اپنے جسم سے اُس پیرہن کی بُو آئی

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

اُس ذات پر صفات کی حُجتّ ہوئی تمام

کیا مرتبہ ہے اُس تن عنبر سرشت کا

رُوح بن کر وسعتِ کونین میں زندہ ہیں آپؐ

سر رشتۂ کُن فکاں محمدؐ

اسم لکھّوں کہ اسمِ ذات لکھوں

گماں تھے ایسے کہ آثار تک یقیں کے نہ تھے

درُود پہلے پڑھو پھر نبیؐ کا ذِکر کرو

اذنِ طواف لے کے شہِؐ دیں پناہ سے

جو کسی کسی کا نصیب ہے

آپؐ اس طرح مری خلوتِ جاں میں آئے