زباں پہ جب بھی مدینے کی گفتگو آئی
نگاہ گنبدِ خضرا کو جا کے چھُو آئی
کبھی ہُوا مری آنکھوں کی تشنگی کا علاج
کبھی کبھی مرے کانوں میں گفتگو آئی
کسی نے جب بھی کیا تذکرہ شمائل کا
تو میری آنکھوں میں وہ شکل ہُو بہُو آئی
کیا ہے دِل نے بہرحال اُنؐ کا ذکرِ جمیل
جو سانس آئی لبوں تک وہ با وضُو آئی
نفس نفس میں در آیا ہے آگہی کا شعُور
ہوائے کوئے مدینہ جو کُو بہ کُو آئی
وہ روشنی جو فضائے حرم میں دیکھی تھی
کبھی نظر کے کبھی دِل کے رُوبرو آئی
حنیفؔ خاکِ مدینہ ملی جو چہرے پر
تو اپنے جسم سے اُس پیرہن کی بُو آئی
شاعر کا نام :- حنیف اسعدی
کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام