کسے نہیں تھی احتیاج حشر میں شفیع کی

کسے نہیں تھی احتیاج حشر میں شفیع کی

ہوئی نگاہِ لطف بات بن گئی جمیع کی


وہ ٹالتا نہیں ہے یا حبیب تیری بات کو

سماعتیں لگی ہیں تیری بات پر سمیع کی


فراق نے حصار میں لیا ہوا تھا روح کو

کرم ہوا عطا ہوئی مجھے گلی وقیع کی


یہ ملتجی کئی دنوں سے تھا برائے حاضری

سنی گئی حضور کے غلام کی، مطیع کی


درودِ پاک سے بنایا سائبان حشر میں

لحد حبیبِ کبریا کے ذکر سے وسیع کی


خدا نے رفعتوں کی حد کہاں بتائی ہے ہمیں

خدا ہی جانتا ہے بس بلندیاں رفیع کی


اگر نہ موت ہو نصیب مجھ کو شہرِ نور میں

تو خاک ڈال دیجئے گا قبر میں بقیع کی

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

نعلین گاہِ شاہ سے لف کر دیئے گئے

گذشتہ رات یادِ شاہ دل میں سو بسو رہی

شوقِ دیدار ہے طاقِ امید پر

خطا کار چوکھٹ پہ آئے ہوئے ہیں

گرے جب اشک طیبہ میں پلک سے

اذاں میں اسمِ نبی سن لیا تھا بچپن میں

اے کریم! نادم ہوں شرم ہے نگاہو ں میں

اذاں میں مصطفیٰ کا نام جب ارشاد ہو وے ہے

حضور کی جستجو کریں گے

ایک پل کا وصال دے موہے