کتنا گناہگار ہُوں کتنا خراب ہُوں

کتنا گناہگار ہُوں کتنا خراب ہُوں

دربارِ مصطفےٰ میں مگر باریاب ہُوں


مفہوم زندگی کا مِری اور کُچھ نہیں

مدحِ رسُولِ پاک کا لُبِّ لُباب ہُوں


منسُوب ہُوں خُدا سے خُدا کے رسوُل سے

مَیں کامیاب ہُوں مَیں بہت کامیاب ہُوں


آنکھیں مِلا کے بات نہ کر مُجھ سے آفتاب

مَیں ذرّۂ دیارِ رسالت مآب ہُوں


مُجھ کو نہ کر سکے گی جُدا اُن سے موت بھی

دریائے کائنات ہیں وہ مَیں حباب ہُوں


وہ لحن ہوں ہوائیں جسے گنگنائیں گی

پڑھتا رہے گا عشق جسے وہ کتاب ہوں


وہ خاک پر چلیں تو ہُوں اُن کا نشانِ پا

اور شہسوار ہوں تو مَیں اُن کی رکاب ہُوں


ہر شب جواب دِہ ہو مظفّر مِرا ضمیر

ہر ایک سانْس کے لیے روزِ حساب ہُوں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

ہمیں نسبت ہے آقا سے یہ نسبت ہم کو کافی ہے

جو بات ظُلم سے نہ ہُوئی پیار سے ہُوئی

دل پہ لکھا لب پہ رہا صلِّ علیٰ محمدٍؐ

عشق کے مول ہر اک سانس بکا ہے میرا

نشانِ پائے محمدؐ جہاں جہاں دیکھا

خُدا ایک ہے مصطفےٰؐ ایک ہے

ممنون ہیں سب انسان ترے

زبان پر جب درود آئے

کعبے میں بیٹھ کے

میں نے جب آپ کی دہلیز کو آقاؐ چوما