ہمیں نسبت ہے آقا سے یہ نسبت ہم کو کافی ہے

ہمیں نسبت ہے آقا سے یہ نسبت ہم کو کافی ہے

محبت ہی محبت ہے معافی ہی معافی ہے


ہماری زندگانی بٹ گئی ہے دو قبیلوں میں

نظر آوارۂ اسباب ہے دل اعتکافی ہے


ہم ان سے پیار بھی کرتے ہیں دنیا پر بھی مرتے ہیں

زباں اقرار نامہ ہے عمل وعدہ خلافی ہے


معالج کوئی اپنا اُن سے بڑھ کر ہو نہیں سکتا

نظر ان کی مسیحا ہے توجہ ان کی شافی ہے


سجائیں زندگی اپنی درودوں سے سلاموں سے

یہی ظاہر کا صافہ ہے یہی باطن کی صافی ہے


غزل میں بھی مظفر وارثی حق بات کرتے ہیں

مگر پھر بھی ہماری نعت غزلوں کی تلافی ہے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

والیِ دیدہ و دل ماحی و حاشر میرے

تِری خُوشبو مِری چادر

ترے پنگھٹ سے بادل اپنی گاگر بھرنے آتے ہیں

رنگ اپنا دکھایا گلی گلی مجھے تو نے پھرایا گلی گلی

خُدا کی بات بات اپنی زبانی کرنے آئے تھے

جو بات ظُلم سے نہ ہُوئی پیار سے ہُوئی

دل پہ لکھا لب پہ رہا صلِّ علیٰ محمدٍؐ

عشق کے مول ہر اک سانس بکا ہے میرا

نشانِ پائے محمدؐ جہاں جہاں دیکھا

کتنا گناہگار ہُوں کتنا خراب ہُوں