خُدا کی بات بات اپنی زبانی کرنے آئے تھے

خُدا کی بات بات اپنی زبانی کرنے آئے تھے

محمدؐ اپنے رب کی ترجمانی کرنے آئے تھے


اُنھیں روحوں کو ذہنوں کو دِلوں کو فتح کرنا تھا

وہ پتّھر جیسے انسانوں کو پانی کرنے آئے تھے


اُنہی کی دی ہُوئی نظروں سے ہم نے حق کو پہچانا

ہماری کالکوں پر ضو فشانی کرنے آئے تھے


نہ آئے ہم کو اپنی ذات سے بھی دوستی کرنی

وہ اپنے دشمنوں پر مہربانی کرنے آئے تھے


فنا کے بعد بھی ہم کو حیاتِ نو کا مژدہ ہے

ہماری عاقبت کتنی سہانی کرنے آئے تھے


شرف حاصل ہُوا اُن کو خُدا کی میزبانی کا

زمیں کا رنگ بھی وہ آسمانی کرنے آئے تھے


نہ تھی محدود اپنے عہد تک پیغمبری اُن کی

ازل سے تا ابد وہ حکمرانی کرنے آئے تھے


تمنّائے شہادت بھی رچا دی خُونِ اُمّت میں

اجل کو بھی شریکِ زندگانی کرنے آئے تھے


مجسّم اِک نمونہ بن کے اخلاق و محبت کا

مظفّر کو فنا فی النعت خوانی کرنے آئے تھے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

دِل پہ اُن کی نظر ہو گئی

والیِ دیدہ و دل ماحی و حاشر میرے

تِری خُوشبو مِری چادر

ترے پنگھٹ سے بادل اپنی گاگر بھرنے آتے ہیں

رنگ اپنا دکھایا گلی گلی مجھے تو نے پھرایا گلی گلی

ہمیں نسبت ہے آقا سے یہ نسبت ہم کو کافی ہے

جو بات ظُلم سے نہ ہُوئی پیار سے ہُوئی

دل پہ لکھا لب پہ رہا صلِّ علیٰ محمدٍؐ

عشق کے مول ہر اک سانس بکا ہے میرا

نشانِ پائے محمدؐ جہاں جہاں دیکھا