رنگ اپنا دکھایا گلی گلی مجھے تو نے پھرایا گلی گلی

رنگ اپنا دکھایا گلی گلی مجھے تو نے پھرایا گلی گلی

ترے در کی چاکریاں کر کے بڑا نام کمایا گلی گلی


شہروں کی رونق مرا جُنوں کانٹوں پر بیٹھ کے پھول چُنوں

دھڑکن دھڑکن تری چاپ سنوں دیکھوں ترا سایہ گلی گلی


ترے پیار کا سانس بٹیں دھاگا ترے ہجر میں راتوں کو جاگا

ترے پیچھے میں پل پل بھاگا تو سامنے آیا گلی گلی


تری چھاؤں جو میرے ہاتھ لگی کڑی دھوپ مجھے برسات لگی

تنہائی بھی اک بارات لگی میلہ سا لگایا گلی گلی


دل سا آئینہ لیے پھرا آنکھوں میں مدینہ لیے پھرا

خشکی پہ سفینہ لیے پھرا طوفان اٹھایا گلی گلی


تری چاہت سے میں بھرا رہا پت جھڑ میں بھی میں ہَرا رہا

ترے پیروں پر سر دھرا رہا اور دل لہرایا گلی گلی


تری بڑی عنایت بڑا کرم مجھے اپنے ساتھ رکھے ہر دم

مرے اِدھر حرم مرے اُدھر حرم مرا دھن مری مایا گلی گلی


تری خوشبو ہے احرام مرا تری نعت پہ ختم کلام مرا

پوچھا جو کسی نے نام مرا ترا پتہ بتایا گلی گلی

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

جہاں بھی ہو وہیں سے دو صدا سرکار سُنتے ہیں

دِل پہ اُن کی نظر ہو گئی

والیِ دیدہ و دل ماحی و حاشر میرے

تِری خُوشبو مِری چادر

ترے پنگھٹ سے بادل اپنی گاگر بھرنے آتے ہیں

خُدا کی بات بات اپنی زبانی کرنے آئے تھے

ہمیں نسبت ہے آقا سے یہ نسبت ہم کو کافی ہے

جو بات ظُلم سے نہ ہُوئی پیار سے ہُوئی

دل پہ لکھا لب پہ رہا صلِّ علیٰ محمدٍؐ

عشق کے مول ہر اک سانس بکا ہے میرا