ترے پنگھٹ سے بادل اپنی گاگر بھرنے آتے ہیں

ترے پنگھٹ سے بادل اپنی گاگر بھرنے آتے ہیں

زمانے بھر کے پیاسے پیاس عمروں کی بجھاتے ہیں


دلوں میں غوطہ زن ہوتی ہے گہرائی سمندر کی

کنارا ان کو ملتا ہے جو تجھ میں ڈوب جاتے ہیں


پرو لیتے ہیں تیری آہٹیں جو اپنی سانسوں میں

اُنہیں آفاق اپنی خانقاہوں میں بلاتے ہیں


سگِ دہلیز ہوں خاک قدم ہوں اُن کا منگتا ہوں

اکیلا ہوں مگر اُن سے مرے کتنے ہی ناتے ہیں


جمالِ مصطفےٰؐ سے منسلک ہوتی ہیں جب آنکھیں

فرشتے میرے اشکوں کی زیارت کرنے آتے ہیں


محبت کا تری جو میں نے دل میں گھر بنایا ہے

چراغ اُس کی منڈیروں پر اندھیرے خود جلاتے ہیں


بس اتنا واسطہ ہے آپؐ کے بازار سے اپنا

خریداری تو کر سکتے نہیں بولی لگاتے ہیں


مدینے کا علاقہ بھی مظفّر دیکھ آیا ہوں

نکلتا ہے زمیں پر چاند تارے جگمگاتے ہیں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

قدرت نے میرے دل میں بھرے مصطفےٰؐ کے رنگ

جہاں بھی ہو وہیں سے دو صدا سرکار سُنتے ہیں

دِل پہ اُن کی نظر ہو گئی

والیِ دیدہ و دل ماحی و حاشر میرے

تِری خُوشبو مِری چادر

رنگ اپنا دکھایا گلی گلی مجھے تو نے پھرایا گلی گلی

خُدا کی بات بات اپنی زبانی کرنے آئے تھے

ہمیں نسبت ہے آقا سے یہ نسبت ہم کو کافی ہے

جو بات ظُلم سے نہ ہُوئی پیار سے ہُوئی

دل پہ لکھا لب پہ رہا صلِّ علیٰ محمدٍؐ