جہاں بھی ہو وہیں سے دو صدا سرکار سُنتے ہیں

جہاں بھی ہو وہیں سے دو صدا سرکار سُنتے ہیں

سرِ آئینہ سُنتے ہیں پسِ دیوار سُنتے ہیں


مِرا ہر سانْس اُن کی آہٹوں کے ساتھ چلتا ہے

مِرے دل کے دھڑکنے کی بھی وہ رفتار سُنتے ہیں


کھڑے رہتے ہیں اہلِ تخت بھی دہلیز پر اُن کی

فقیروں کی صدائیں بھی شہِ ابرار سُنتے ہیں


گنہگارو درودِ والہانہ بھیج کر دیکھو

وہ اپنے اُمّتی کا نغمۂ کردار سُنتے ہیں


وہ یُوں مِلتے ہیں جیسے زندگی میں کوئی مِلتا ہے

وہ سُنتے ہیں ہر اِک کی اور سرِ دربار سُنتے ہیں


مَیں صدقے جاؤں اُن کی رَحْمَةُ الِّلْعَالَمِیْنی کے

پکارو چاہے کِتنی بار وہ ہر بار سُنتے ہیں


مُظفّر جب کِسی محفل میں اُن کی نعت پڑھتا ہُوں

مِرا ایمان ہے وہ بھی مرے اشعار سُنتے ہیں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

بدن پہ چادر ہے آنسوؤں کی

یقین حاوی سا ہے گماں پر

زمین ہے میرے سر پہ جیسے

وہ جاری و ساری مسلسل ہیں وہ

قدرت نے میرے دل میں بھرے مصطفےٰؐ کے رنگ

دِل پہ اُن کی نظر ہو گئی

والیِ دیدہ و دل ماحی و حاشر میرے

تِری خُوشبو مِری چادر

ترے پنگھٹ سے بادل اپنی گاگر بھرنے آتے ہیں

رنگ اپنا دکھایا گلی گلی مجھے تو نے پھرایا گلی گلی