معطر معطر پسینہ ہے ان کا

معطر معطر پسینہ ہے ان کا

مطہر معنبر مدینہ ہے ان کا


خدا کا کہا بولتے ہیں ہمیشہ

خدا کا یہ قرآں قرینہ ہے ان کا


نہیں ڈوب سکتا مجھے یہ یقیں ہے

میں بیٹھا ہوں جس پر، سفینہ ہے ان کا


منائیں گے میلاد ہم جس مہینے

وہ خوشیوں کا محور، مہینہ ہے ان کا


عقیق اور نیلم بنے اُن کی خاطر

جو انگلی میں ڈالیں نگینہ ہے ان کا


جو ہستی کے احمد ، بتاتے ضوابط

صحابہ کے دل میں دفینہ ہے ان کا


وہ پیارے ہیں قائم شہِ دو سرا کو

نجف کربلا میں خزینہ ہے اُن کا

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

خیالوں میں شاہِ امم دیکھتے ہیں

نہ اِس جہاں میں نہ اُس جہاں میں

نگر نگر میں گھوم کر اے زائرو ضیا کرو

حسیں ہیں بہت اس زمیں آسماں پر

خدایا مصطفٰی سے تو ملا دینا حقیقت میں

کہا معراج پر آؤ شہِ ابرار بسم اللہ

’’حضور آپ کی سیرت کو جب امام کیا‘‘

درود چشم اور گوش پر کبھی صبا سے سن

کہیں پر عُود اور عنبر کہیں پر گُل بچھاتے ہیں

ایک عرصہ ہو گیا بیٹھے ہیں ہم