اے مرسلِ پاکیزہ خو
کس خُلق کا پیکر ہے تُو
قرآں ہے گویا ہو بہو
کشورکشائے بحر و بر
احسان ہے تُو سر بسر
تو ہر زماں کی آبرو
تو کائناتِ حسن ہے
تیری زکاتِ حسن ہے
یہ آب و گلِ ، یہ رنگ و بو
سب رنگ ہیں اِک رنگ سے
بتلا دیا کس ڈھنگ سے
دل پر بٹھا کر نقشِ ہُو
تھے وہ نجومِ اہتدا
بخت ان کے تھے کتنے رسا
بیٹھے جو تیرے رو برو
روما، حبش، ایران سے
سب آکے تیرے ہوگئے
جن کو تھی حق کی جستجو
خوابوں میں آکر مسکرا
بیداریوں کو جگمگا
اے آمنہ کے ماہ رو
چہرہ ترا تکتا رہوں
تجھ سے تری باتیں سنوں
رکھتا ہوں میں بھی آرزو
دیکھے دُعا بابِ اثر
شامِ الم کی ہو سَحَر
مدحت سرا ہوِ مُو بہ مُو
یا ا َیہاَ المُذّمِّل
شاعر کا نام :- حفیظ تائب
کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب