نورِ احمد کی حقیقت کو جو پہچان گیا

نورِ احمد کی حقیقت کو جو پہچان گیا

نور سے نور ملا کرتا ہے یہ جان گیا


پل کے پل عالمِ جبروت کے پردے اٹھے

عرش سے آگے کی منزل پہ جب انسان گیا


فضلِ رب سے ملی سرکار کو ایسی قدرت

اک اشارہ کیا سورج بھی کہا مان گیا


خود سے پوچھا جو کبھی اپنا پتہ بھولے سے

جانے کیوں کوچہء طیبہ کی طرف دھیان گیا


ان کی عظمت کی یہی ایک نشانی بس ہے

دل ذرا سا بھی پھرا ان سے کہ ایمان گیا


اُس طرف رحمت خَلّاقِ دو عالم برسی

نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذی شان گیا


نعت پڑھتا ہوا نظمی جو سر رہ گزرا

لوگ کہہ اٹّھے لو وہ نائبِ حسّان گیا

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

حرمِ طیبہ کا دستور نرالا دیکھا

ان کی جام جم آنکھیں شیشہ ہے بدن میرا

روزِ محشر جانِ رحمت کا عَلَم لہرائے گا

مبارکباد اے برکاتیو مژدہ ہے جنت کا

دل میں عشق مصطفیٰ کا نوری جوہر رکھ دیا

وقف نظمی کا قلم جب نعتِ سرور میں ہوا

ذبیح اعظم کے خاندان میں حبیب ربِ حسیب آیا

دل کو جب بارِ الم یاد آیا

مدحِ سرکار میں نعتیں میں سناتا رہتا

آرزوئیں کیسی ہیں کاش یوں ہوا ہوتا