سخن با آبرو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے

سخن با آبرو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے

تخیل سرخرو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے


کہیں نُدرت کی خوشبو سے کہیں اُن کے پسینے سے

سُخن جب مُشکبو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے


خیالوں میں نہ بسنے دیں اگر دنیا کی رونق کو

نبی کی جستجو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے


حرا کے غار کی حسرت بھلے ہو خاکِ بطحا کی

سلامِ آرزو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے


محبت سے یہ دل بولے یا لکھنا ہی عمل ٹھہرے

نبی کی گفتگو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے


مدینے کی زمیں چوموں یا خوابوں میں تسلسل سے

زیارت آرزو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے


اُنہی کا نور دل دیکھے جدھر سوچے اُدھر پائے

رسائی چارسو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے


سخن شائق قلم کی نوک لکھ دے جب فقط آقا

وہ خوشبو کُو بہ کُو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے


سلامِ دل نظر اپنی جھکا کر بھیجتا ہوں تو

مدینہ روبرو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے


فراقِ چشم کی دولت شبِ غم کے قرینے سے

جب اشکوں کا سبُو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے


نظر ڈالوں میں جب خضریٰ کے اندر نور پر قائم

شکستہ دل رفو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

دل سے تڑپ کے نکلیں صدائیں مرے نبی

دل کشا، دل ربا دل کشی ہو گئی

الہامِ نعت ہوتا ہے چاہت کے نور سے

ثنا کی مجھ کو ملے روشنی کبھی نہ کبھی

ابتدا انتہا سروری پرکشش

عندلیبِ خیال آپ سے ہے

ذکرِ بطحا نہیں سناتے ہو

دیکھتی رہ گئیں سماں آنکھیں

جہانِ رنگ و بو کی نکہتوں میں مصطفیٰ ڈھونڈوں

جب خیالوں میں بلاغت کا صحیفہ اترا